غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان کئی روز سے جاری جھڑپیں جاری ہیں، ان جھڑپوں کے دوران دونوں اطراف سے ہزاروں راکٹ، مزائل، بارودی مواد گرا...
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان کئی روز سے جاری جھڑپیں جاری ہیں، ان جھڑپوں کے دوران دونوں اطراف سے ہزاروں راکٹ، مزائل، بارودی مواد گرانے والے ڈرون اور بے شمار چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے پاس اتنا جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے اور دنیا کی بہترین انٹیلیجنس ایجنسیاں تاحال اس کا سراغ کیوں نہیں لگا پاتیں۔اس ضمن میں امریکا کا ایران پر الزام عائد کرتا ہے کہ ایرانی حکومت حماس کو سُرنگوں اور سمندر کے راستے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے اسلحہ فراہم کرتی ہے۔ادھر سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ حماس اپنے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کرتی ہے اور مقامی سطح پر خود بھی تیار کرتی ہے۔اس سوال کا جواب پھر بھی نہیں ملا کہ حماس اتنے سارے ممالک اور ان کے انٹیلی جنس نیٹ ورکس کو کیسے چکما دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لبنان میں مقیم حماس کے بیرونِ ملک قومی تعلقات کے سربراہ علی براکا کا دعوی ہے کہ ہمارے پاس ہر قسم کا ہتھیار تیار کرنے کے لیے مقامی سطح پر الگ الگ فیکٹریاں ہیں۔اُن کے مطابق ہمارے پاس مارٹر اور ان کے گولوں، اسی طرح کلاشنکوف اور ان کی گولیاں بنانے کی فیکٹریاں ہیں اور یہ ہتھیار ہم روس کی اجازت سے غزہ میں بنا رہے ہیں۔علی براکا نے بتایا کہ ہمارے پاس 250 کلو میٹر، 160 کلومیٹر، 80 کلومیٹر، اور 10 کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے راکٹس بنانے کی فیکٹریاں اور ان میں ماہر افراد بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے ہم اسلحہ خود تیار کر لیتے ہیں، واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے احمد فواد نے میڈیا کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے سے جو سریا اور وائرنگ وغیرہ نکلتی ہے اس کا استعمال بھی حماس کے لیے تیار کیے جانے والے ہتھیاروں میں ہوتا ہے۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ میں پھینکے گئے نہ پھٹ سکنے والے راکٹس اور گولہ بارود بھی حماس کے لیے ایک نعمت ہیں کیونکہ یہی اسرائیلی جنگی سامان بعد میں حماس اسرائیل کے ہی خلاف استعمال کرتی ہے۔یعنی اسرائیلی جنگی ساز و سامان کا دوبارہ استعمال حماس کے ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافہ کرتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں