میڈیا لیڑیسی عوام کے مفاد میں ہے یہ تو پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی اکثریت میڈیا لیٹریسی کے معنی و مفہوم سے آشنا نہیں ...
میڈیا لیڑیسی عوام کے مفاد میں ہے
یہ تو پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی اکثریت میڈیا لیٹریسی کے معنی و مفہوم سے آشنا نہیں ،درحقیقت آسان الفاظ میں میڈیا لیٹریسی کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا کے محتاط استعمال بارے شعور ہونا یا پھر میڈیا کے بنیادی اصول وضوابط بارے پوری معلومات حاصل ہوں ، یہ جانتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کے بنیادی اصولوں کو جاننے کی اہلیت لیٹریسی کے زمرے میں آتی ہے مگر آج ٹیکنالوجی کی بدولت بہت کچھ بدل چکا ، ماضی میں کتاب ، اخبار اور ٹی وی عام آدمی کے خیالات اور رجحانات کو تبدیل کرنے کا باعث بنتا تھے مگر اب سوشل میڈیا کی شکل میں نیا فیکڑ سامنے آچکا ، سچ یہ ہے کہ عصر حاضر کا شائد ہی کوئی شخص ہو جس کے سماجی، سیاسی ، مذہبی حتی کہ اخلاقی رجحانات پر بھی میڈیا اثر انداز نہیں ہورہا، میڈیا کا دعوی ہے کہ وہ صارفین کو معلومات یا پھر تفریح فراہم کرتا ہے مگرحقیقت میں وہ اپنے سننے اور جاننے والوں کے رجحانات حتی کے پسند نا پسند پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ انواع واقسام کے اشتہارات میں معروف شخصیات کو کیونکر لیا جاتا ہے ، بنیادی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام اپنی پسندیدہ شخصیت کے کہے ہوئے الفاظ پر اعتبار کرکے اس اشہتار میں چھپے پیغام پر عمل کرنے پر مجبور ہوجائیں ،پوچھا جاسکتا ہے کہ عام پاکستانی کو میڈیا لیڑیسی کے بارے میں معلومات ہونا کیونکر ضروری ہیں، جواب ہے کہ پاکستانی میڈیا مشنری جذبہ کے تحت کام نہیں کررہا ، یہ لاکھوں نہیں کروڈوں روپے کا کھیل کھیلتا ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہے کہ کوئی شخص اگر کروڈوں روپے خرچ کرے گا تو لامحالہ طور پر اس کی ترجیح اول منافع کمانا ہوگا، دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستانی میڈیا بھی تجارتی بنیادوں پر کام کررہا ہے یعنی وہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے درپے ہے ، پوچھا جاسکتا ہے کہ میڈیا کیوں اور کیسے منافع کماتا ہے ، اس سوال کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر میڈیا نے عوام اور سرمایہ دار میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو لامحالہ طور پر وہ سرمایہ دار کے مفادات کا تحفظ کرے گا کیونکہ سرمایہ دار ہی پرنٹ ، الیکڑانک یا پھر سوشل میڈیا کمپنی مالکان کو اشتہار کی شکل میں پیسہ دے سکتا ہے ، اب ایسی صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام کےمفاد پر ضرب لگے گی ، اس تلخ حقیقت کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں ایک سو سے زائد ٹی وی چنیلز ہیں جس کسی نے بھی نجی نیوز چنیلز کی کارکردگی کا باریک بین سے جائزہ لیا وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہمارے نامور اینکرز کا پسندیدہ موضوع سیاست ہے ، یعنی کبھی ایک سیاسی جماعت کے حق میں پروگرام تو کبھی دوسری پارٹی کی جے جے کرنا ، پوچھا جانا چاہے کہ کیا کم وبیش 24 کروڈ آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر آچکا ، کیا سکولوں سے باہر کروڈوں بچے تعلیم حاصل کرنا شروع ہوگے ، کیا خواتین کے خلاف مظالم میں کمی آچکی ، کیا بڑھتی ہوئی آبادی کا جن بوتل میں بند کردیا گیا ، کیا معاشرے میں سیاسی ، مذہبی اور لسانی انتہاپسندی کا خاتمہ ہوچکا، کیا سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار میں نمایاں بہتری آچکی ، کیا اندرون سندھ غربت اور پسماندگی کا خاتمہ ہوگیا ، غرض ایسے درجنوں سوال ہیں جو ہم معزز اور دانشور نظرآنے والے اینکرز سے پوچھ سکتے ہیں، میڈیا لیڑیسی کا مطلب یہ ہے کہ ناظرین اس حقیقت سے آگاہ رہیں کہ بشیتر ٹی وی چنیلز صرف اور صرف رینٹنگ کی دوڈ میں ہلکان ہورہے ہیں، ان کا اول وآخر مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ صرف ان ہی کا ٹی وی چنیل عوام میں زیادہ سے زیادہ دیکھا جاتا ہے ، اس ہدف کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹی وی چنیل بالخصوص ان کے ٹاک شو کو تواتر کے ساتھ اشہتارات دیتی رہیں، صورت حال کی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں رمضان المبارک ہو یا محرم الحرام ، عید الفطر ہو یا پھر عید الضحی نجی کمپنیاں صارفین کو اپنی طرف راغب کرنےکے لیے ہر قومی و مذہبی دن کی مناسب سے پرائیوٹ ٹی وی چنیلز کو اشہتار دیتی ہیں۔ پرنٹ ، الیکڑانک یا پھر سوشل میڈیا پر اپنا وقت صرف کرنے والے عام پاکستانی کو ایک غلط فہمی یہ ہے کہ پرائیوٹ میڈیا غیرجانبدار ہوا کرتا ہے مگر حقیقت اس کے باکل ہی برعکس ہے ، نیوز بولٹن ہو یا پھر ٹاک شو میڈیا مالکان اپنے مفادات کو ہی اولیت دیتے ہیں، زیادہ پرانی بات نہیں جب ملک کے دو بڑے پرائیوٹ ٹی وی چنیلز بارے عوام کی اکثریت جان چکی تھی کہ کون کا چنیل کس پارٹی کی نمائندگی کررہا ہے ، ملک میں الیکڑانک میڈیا تک عوام تک رسائی آسان ہوچکی چنانچہ اب تو سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں کی کوریج کا کھیل بھی کامیابی سے کھیلا جارہا ہے ، ماضی کے برعکس آج ہمارے مذہبی قائدین بھی میڈیا کی کوریج کے اتینے کی متلاشی ہیں جتنے کہ اعتدال پسند یا لبرل سیاسی رہنما، چنانچہ عوام پر لازم ہے کہ وہ میڈیا کے سیٹھوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے میڈیا لیٹریسی سے کام لیتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں ،
کوئی تبصرے نہیں